EN हिंदी
پھر اک نئے سفر پہ چلا ہوں مکان سے | شیح شیری
phir ek nae safar pe chala hun makan se

غزل

پھر اک نئے سفر پہ چلا ہوں مکان سے

عبد الرحیم نشتر

;

پھر اک نئے سفر پہ چلا ہوں مکان سے
کوئی پکارتا ہے مجھے آسمان سے

آواز دے رہا ہے اکیلا خدا مجھے
میں اس کو سن رہا ہوں ہواؤں کے کان سے

کچھ دن تو بے گھری کا تماشہ بھی دیکھ لوں
یوں بھی ہے جی اچاٹ پرانے مکان سے

دونوں ہی ہم سفر تھے ہواؤں کے دوش پر
پر میں ہوں چور چور سفر کی تکان سے

پیروں تلے دبی ہے وہی ریت کی چٹان
مجھ کو ہوا نے پھینک دیا آسمان سے

وہ زد پہ آ گیا تھا نہتا بھی تھا مگر
میں نے ہی کوئی تیر نہ چھوڑا کمان سے

میرے لبوں پہ کھیل رہی ہے وہی ہنسی
ہر چند ریت ریت ہوا ہوں چٹان سے