پھر اک نئے سفر پہ چلا ہوں مکان سے
کوئی پکارتا ہے مجھے آسمان سے
آواز دے رہا ہے اکیلا خدا مجھے
میں اس کو سن رہا ہوں ہواؤں کے کان سے
کچھ دن تو بے گھری کا تماشہ بھی دیکھ لوں
یوں بھی ہے جی اچاٹ پرانے مکان سے
دونوں ہی ہم سفر تھے ہواؤں کے دوش پر
پر میں ہوں چور چور سفر کی تکان سے
پیروں تلے دبی ہے وہی ریت کی چٹان
مجھ کو ہوا نے پھینک دیا آسمان سے
وہ زد پہ آ گیا تھا نہتا بھی تھا مگر
میں نے ہی کوئی تیر نہ چھوڑا کمان سے
میرے لبوں پہ کھیل رہی ہے وہی ہنسی
ہر چند ریت ریت ہوا ہوں چٹان سے
غزل
پھر اک نئے سفر پہ چلا ہوں مکان سے
عبد الرحیم نشتر