اپنے ہونے کا اک اک پل تجربہ کرتے رہے
نوک نیزہ پر بھی ہم رقص انا کرتے رہے
اک مسلسل جنگ تھی خود سے کہ ہم زندہ ہیں آج
زندگی ہم تیرا حق یوں بھی ادا کرتے رہے
ہاتھ میں پتھر نہ تھا چہرے پہ وحشت بھی نہ تھی
پھر وہ کیا تھا جس پہ ہم یوں قہقہہ کرتے رہے
کچھ نہ کچھ تو پیش منظر میں بھی شاید تھا کہیں
کچھ پس منظر بھی ہم آب و ہوا کرتے رہے
بے طلب بڑھتا رہا ہر لمحہ قرض جاں کا بوجھ
بے سبب ہی ہر نفس خود کو ادا کرتے رہے
دور تک پھیلا دیے کہسار جنگل وادیاں
رزق آنکھوں کو دیا ہر پل نیا کرتے رہے
تم تو اے خوشبو ہواؤ اس سے مل کر آ گئیں
ایک ہم تھے زخم تنہائی ہرا کرتے رہے
زہر خود بوتے رہے اجلی ہواؤں میں کمالؔ
چند سانسوں کو بھی ہم بے ذائقہ کرتے رہے
غزل
اپنے ہونے کا اک اک پل تجربہ کرتے رہے
عبد اللہ کمال