مری بربادیوں کا ہم نشینو
تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں ہے
اسرار الحق مجاز
پھر کسی کے سامنے چشم تمنا جھک گئی
شوق کی شوخی میں رنگ احترام آ ہی گیا
اسرار الحق مجاز
پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک
پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے
اسرار الحق مجاز
روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے
ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ
اسرار الحق مجاز
روداد غم الفت ان سے ہم کیا کہتے کیوں کر کہتے
اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے
اسرار الحق مجاز
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے
اسرار الحق مجاز
تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
اس سعئ کرم کو کیا کہئے بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے
اسرار الحق مجاز

