ساقی گلفام باصد اہتمام آ ہی گیا 
نغمہ بر لب خم بہ سر بادہ بہ جام آ ہی گیا 
اپنی نظروں میں نشاط جلوۂ خوباں لیے 
خلوتی خاص سوئے بزم عام آ ہی گیا 
میری دنیا جگمگا اٹھی کسی کے نور سے 
میرے گردوں پر مرا ماہ تمام آ ہی گیا 
جھوم جھوم اٹھے شجر کلیوں نے آنکھیں کھول دیں 
جانب گلشن کوئی مست خرام آ ہی گیا 
پھر کسی کے سامنے چشم تمنا جھک گئی 
شوق کی شوخی میں رنگ احترام آ ہی گیا 
میری شب اب میری شب ہے میرا بادہ میرے جام 
وہ مرا سرو رواں ماہ تمام آ ہی گیا 
بارہا ایسا ہوا ہے یاد تک دل میں نہ تھی 
بارہا مستی میں لب پر ان کا نام آ ہی گیا 
زندگی کے خاکۂ سادہ کو رنگیں کر دیا 
حسن کام آئے نہ آئے عشق کام آ ہی گیا 
کھل گئی تھی صاف گردوں کی حقیقت اے مجازؔ 
خیریت گزری کہ شاہیں زیر دام آ ہی گیا
        غزل
ساقی گلفام باصد اہتمام آ ہی گیا
اسرار الحق مجاز

