EN हिंदी
جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے | شیح شیری
junun-e-shauq ab bhi kam nahin hai

غزل

جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے

اسرار الحق مجاز

;

جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے
مگر وہ آج بھی برہم نہیں ہے

بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے

بہت کچھ اور بھی ہے اس جہاں میں
یہ دنیا محض غم ہی غم نہیں ہے

تقاضے کیوں کروں پیہم نہ ساقی
کسے یاں فکر بیش و کم نہیں ہے

ادھر مشکوک ہے میری صداقت
ادھر بھی بد گمانی کم نہیں ہے

مری بربادیوں کا ہم نشینو
تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں ہے

ابھی بزم طرب سے کیا اٹھوں میں
ابھی تو آنکھ بھی پر نم نہیں ہے

بہ ایں سیل غم و سیل حوادث
مرا سر ہے کہ اب بھی خم نہیں ہے

مجازؔ اک بادہ کش تو ہے یقیناً
جو ہم سنتے تھے وہ عالم نہیں ہے