میں ایک ریت کا پیکر تھا اور بکھر بھی گیا
عجب تھا خواب کہ میں خواب ہی میں ڈر بھی گیا
ہوا بھی تیز نہ تھی اور چراغ مر بھی گیا
میں سامنے بھی رہا ذہن سے اتر بھی گیا
نہ احتیاط کوئی کام آیا عشق کے ساتھ
جو روگ دل میں چھپا تھا وہ کام کر بھی گیا
عجب تھی ہجر کی ساعت کہ جاں پہ بن آئی
کڑا تھا وقت وہ دل پر مگر گزر بھی گیا
ہوا سے دوستی جس کو تھا مشورہ میرا
اسی چراغ کی لو سے میں آج ڈر بھی گیا
کبھی نہ مجھ کو ڈرائے گا میرے باطن سے
یہ عہد کر کے مرا آئینہ مکر بھی گیا
کنارے والے مجھے بس صدائیں دیتے رہے
بھنور کو ناؤ بنا کر میں پار اتر بھی گیا
میں خاک پا سہی کم تر مجھے نہ جان کہ میں
غبار بن کے اٹھا آسمان پر بھی گیا
میں اپنے جسم کے اندر تھا عافیت سے مگر
لہو کے سیل بلا خیز میں یہ گھر بھی گیا
خطا یہ تھی کہ میں آسانیوں کا طالب تھا
سزا یہ ہے کہ مرا تیشۂ ہنر بھی گیا
غزل
میں ایک ریت کا پیکر تھا اور بکھر بھی گیا
اسلم محمود