EN हिंदी
رات آتی ہے تو طاقوں میں جلاتے ہیں چراغ | شیح شیری
raat aati hai to taqon mein jalate hain charagh

غزل

رات آتی ہے تو طاقوں میں جلاتے ہیں چراغ

اسلم محمود

;

رات آتی ہے تو طاقوں میں جلاتے ہیں چراغ
خواب زندہ ہیں سو آنکھوں میں جلاتے ہیں چراغ

آندھیاں اب ہمیں محصور کئے بیٹھی ہیں
اب تو ہم صرف خیالوں میں جلاتے ہیں چراغ

ٹھوکریں کھاتے ہوئے عمر کٹی اپنی سو ہم
دوسروں کے لئے راہوں میں جلاتے ہیں چراغ

طنز کرتا ہوا گزرا تھا ہوا کا جھونکا
تب سے ہم تیز ہواؤں میں جلاتے ہیں چراغ

تشنہ لب آئیں گے دریاؤں کے ٹھکرائے ہوئے
اسی باعث تو سرابوں میں جلاتے ہیں چراغ

خواب بکھرے ہیں ہمارے یہاں ہر گام سو ہم
شام ہوتے ہی خرابوں میں جلاتے ہیں چراغ