میں ہجو اک اپنے ہر قصیدے کی رد میں تحریر کر رہا ہوں
کہ آپ اپنے سے ہوں مخاطب خود اپنی تحقیر کر رہا ہوں
کہاں ہے فرصت نشاط و غم کی کہ خود کو تسخیر کر رہا ہوں
لہو میں گرداب ڈالتا ہوں نفس کو شمشیر کر رہا ہوں
مری کہانی رقم ہوئی ہے ہوا کے اوراق منتشر پر
میں خاک کے رنگ غیر فانی کو اپنی تصویر کر رہا ہوں
میں سنگ و خشت انا کی بارش میں کب کا مسمار ہو چکا ہوں
اب انکساری کی نرم مٹی سے اپنی تعمیر کر رہا ہوں
یہ عشق کی ہے فسوں طرازی کہ وحشتوں کی کرشمہ سازی
کمند خوشبو پہ ڈالتا ہوں ہوا کو زنجیر کر رہا ہوں
شناوری کے اصول مجھ کو بتائے گا کوئی کیا کہ میں نے
کیا ہے موجوں کا خیر مقدم بھنور کی توقیر کر رہا ہوں
تم اپنے دریاؤں پر بٹھاؤ ہزار پہرے مگر مجھے کیا
میں سارے خوابوں کو سب سرابوں کو اپنی جاگیر کر رہا ہوں
غزل
میں ہجو اک اپنے ہر قصیدے کی رد میں تحریر کر رہا ہوں
اسلم محمود