تیری یادیں بحال رکھتی ہے
رات دل پر وبال رکھتی ہے
شب غم کی یہ راگنی بن میں
بانسری جیسی تال رکھتی ہے
دل کی وادی سے اٹھنے والی کرن
وحشتوں کو اجال رکھتی ہے
بام و در پر اترنے والی دھوپ
سبز رنگ ملال رکھتی ہے
شام کھلتی ہے تیرے آنے سے
لب پہ تیرا سوال رکھتی ہے
ایک لڑکی اداس صفحوں میں
اک جزیرہ سنبھال رکھتی ہے
آخری دیپ کی لرزتی لو
مہر و مہ سا جمال رکھتی ہے
غزل
تیری یادیں بحال رکھتی ہے
عاصمہ طاہر