پو پھٹتے ہی ٹرین کی سیٹی جب کانوں میں گونجتی ہے
ثروت تیری یاد مرے دل کے خانوں میں گونجتی ہے
شہزادی کے ہجر میں لکھے کچھ لفظوں کی حیرانی
شہزادی کے گھر تک آتے مے خانوں میں گونجتی ہے
شہزادی کے کانوں میں جو بات کہی تھی اک تو نے
بعد ترے وہ بات ترے ہی افسانوں میں گونجتی ہے
جان سے جانے سے پہلے اک آہ بھری ہوگی تو نے
شام ڈھلے جو دور کہیں اب ویرانوں میں گونجتی ہے

غزل
پو پھٹتے ہی ٹرین کی سیٹی جب کانوں میں گونجتی ہے
عاصمہ طاہر