EN हिंदी
خوشی بھی اب سراپا غم لگے ہے | شیح شیری
KHushi bhi ab sarapa gham lage hai

غزل

خوشی بھی اب سراپا غم لگے ہے

اسعد بدایونی

;

خوشی بھی اب سراپا غم لگے ہے
توجہ آپ کی کچھ کم لگے ہے

کوئی ہم دم نہیں دنیا میں لیکن
جسے دیکھو وہی ہم دم لگے ہے

میں ہوں مجبور اپنے دل سے مجھ کو
پرایا غم بھی اپنا غم لگے ہے

بہاریں ہیں چمن میں گل بداماں
خزاں کا سا مگر موسم لگے ہے

جدھر دیکھو ادھر شبنم کے آنسو
چمن کیا ہے صف ماتم لگے ہے

ہر اک مجبور سے کہہ دو یہ اسعدؔ
ہر اک مغرور کا سر خم لگے ہے