یہی نہیں کہ مرا گھر بدلتا جاتا ہے
مزاج شہر بھی بدلتا جاتا ہے
رتیں قدیم تواتر سے آتی جاتی ہیں
درخت پتوں کے زیور بدلتا جاتا ہے
افق پہ کیوں نہیں رکتی کوئی کرن پل بھر
یہ کون تیزی سے منظر بدلتا جاتا ہے
غبار وقت میں سب رنگ گھلتے جاتے ہیں
زمانہ کتنے ہی تیور بدلتا جاتا ہے
چھڑی ہوئی ہے ازل سے دل و نگاہ میں جنگ
محاذ ایک ہے لشکر بدلتا جاتا ہے
یہ کس کا ہاتھ ہے جو بے چراغ راتوں میں
فصیل شہر کے پتھر بدلتا جاتا ہے
پرند پیڑ سے پرواز کرتے جاتے ہیں
کہ بستیوں کا مقدر بدلتا جاتا ہے
غزل
یہی نہیں کہ مرا گھر بدلتا جاتا ہے
اسعد بدایونی