نہیں وہ اگلی سی رونق دیار ہستی کی
تباہ کن کوئی طوفان تھا شباب نہ تھا
آرزو لکھنوی
نظر بچا کے جو آنسو کئے تھے میں نے پاک
خبر نہ تھی یہی دھبے بنیں گے دامن کے
آرزو لکھنوی
نگاہیں اس قدر قاتل کہ اف اف
ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ
آرزو لکھنوی
پھیل گئی بالوں میں سپیدی چونک ذرا کروٹ تو بدل
شام سے غافل سونے والے دیکھ تو کتنی رات رہی
آرزو لکھنوی
پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے
جھوٹا ہی وعدہ کر لے سچی زبان والے
آرزو لکھنوی
پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں
آرزو لکھنوی
راہ بر رہزن نہ بن جائے کہیں اس سوچ میں
چپ کھڑا ہوں بھول کر رستے میں منزل کا پتا
آرزو لکھنوی

