EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نہیں وہ اگلی سی رونق دیار ہستی کی
تباہ کن کوئی طوفان تھا شباب نہ تھا

آرزو لکھنوی




نظر بچا کے جو آنسو کئے تھے میں نے پاک
خبر نہ تھی یہی دھبے بنیں گے دامن کے

آرزو لکھنوی




نگاہیں اس قدر قاتل کہ اف اف
ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

آرزو لکھنوی




پھیل گئی بالوں میں سپیدی چونک ذرا کروٹ تو بدل
شام سے غافل سونے والے دیکھ تو کتنی رات رہی

آرزو لکھنوی




پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے
جھوٹا ہی وعدہ کر لے سچی زبان والے

آرزو لکھنوی




پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں

آرزو لکھنوی




راہ بر رہزن نہ بن جائے کہیں اس سوچ میں
چپ کھڑا ہوں بھول کر رستے میں منزل کا پتا

آرزو لکھنوی