کس گل کی بو ہے دامن دل میں بسی ہوئی
چلتی ہے چھیڑتی ہوئی باد صبا مجھے
آرزو لکھنوی
کس کام کی ایسی سچائی جو توڑ دے امیدیں دل کی
تھوڑی سی تسلی ہو تو گئی مانا کہ وہ بول کے جھوٹ گیا
آرزو لکھنوی
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی
آرزو لکھنوی
کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا
وہ میرا سمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا سب کہہ جانا
آرزو لکھنوی
کچھ تو مل جائے لب شیریں سے
زہر کھانے کی اجازت ہی سہی
آرزو لکھنوی
لالچ بھری محبت نظروں سے گر نہ جائے
بد اعتقاد دل کی جھوٹی نماز ہو کر
آرزو لکھنوی
معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے
دل آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر چلانا کیا جانے
آرزو لکھنوی

