EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کس گل کی بو ہے دامن دل میں بسی ہوئی
چلتی ہے چھیڑتی ہوئی باد صبا مجھے

آرزو لکھنوی




کس کام کی ایسی سچائی جو توڑ دے امیدیں دل کی
تھوڑی سی تسلی ہو تو گئی مانا کہ وہ بول کے جھوٹ گیا

آرزو لکھنوی




کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی

آرزو لکھنوی




کچھ کہتے کہتے اشاروں میں شرما کے کسی کا رہ جانا
وہ میرا سمجھ کر کچھ کا کچھ جو کہنا نہ تھا سب کہہ جانا

آرزو لکھنوی




کچھ تو مل جائے لب شیریں سے
زہر کھانے کی اجازت ہی سہی

آرزو لکھنوی




لالچ بھری محبت نظروں سے گر نہ جائے
بد اعتقاد دل کی جھوٹی نماز ہو کر

آرزو لکھنوی




معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے
دل آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر چلانا کیا جانے

آرزو لکھنوی