مخرب کار ہوئی جوش میں خود عجلت کار
پیچھے ہٹ جائے گی منزل مجھے معلوم نہ تھا
آرزو لکھنوی
مثال شمع اپنی آگ میں کیا آپ جل جاؤں
قصاص خامشی لے گی کہاں تک اے زباں مجھ سے
آرزو لکھنوی
محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے
بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے
آرزو لکھنوی
محبت وہیں تک ہے سچی محبت
جہاں تک کوئی عہد و پیماں نہیں ہے
آرزو لکھنوی
مجھے رہنے کو وہ ملا ہے گھر کہ جو آفتوں کی ہے رہ گزر
تمہیں خاکساروں کی کیا خبر کبھی نیچے اترے ہو بام سے
آرزو لکھنوی
نالے ہیں دلستاں تو پھر آہیں ہیں برچھیاں تو پھر
ہم تو خموش بیٹھے تھے آپ نے کیوں ستا دیا
آرزو لکھنوی
نام منصور کا قسمت نے اچھالا ورنہ
ہے یہاں کون سا حق گو کہ سر دار نہیں
آرزو لکھنوی

