EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

حد سے ٹکراتی ہے جو شے وہ پلٹتی ہے ضرور
خود بھی روئیں گے غریبوں کو رلانے والے

آرزو لکھنوی




ہے محبت ایسی بندھی گرہ جو نہ ایک ہاتھ سے کھل سکے
کوئی عہد توڑے کرے دغا مرا فرض ہے کہ وفا کروں

آرزو لکھنوی




ہلکا تھا ندامت سے سرمایہ عبادت کا
اک قطرے میں بہہ نکلے تسبیح کے سو دانے

آرزو لکھنوی




ہم کو اتنا بھی رہائی کی خوشی میں نہیں ہوش
ٹوٹی زنجیر کہ خود پاؤں ہمارا ٹوٹا

آرزو لکھنوی




ہماری ناکامیٔ وفا نے زمانے کی کھول دی ہیں آنکھیں
چراغ کب کا بجھا پڑا ہے مگر اندھیرا کہیں نہیں ہے

آرزو لکھنوی




ہر اک شام کہتی ہے پھر صبح ہوگی
اندھیرے میں سورج نظر آ رہا ہے

آرزو لکھنوی




ہر نفس اک شراب کا ہو گھونٹ
زندگانی حرام ہے ورنہ

آرزو لکھنوی