حد سے ٹکراتی ہے جو شے وہ پلٹتی ہے ضرور
خود بھی روئیں گے غریبوں کو رلانے والے
آرزو لکھنوی
ہے محبت ایسی بندھی گرہ جو نہ ایک ہاتھ سے کھل سکے
کوئی عہد توڑے کرے دغا مرا فرض ہے کہ وفا کروں
آرزو لکھنوی
ہلکا تھا ندامت سے سرمایہ عبادت کا
اک قطرے میں بہہ نکلے تسبیح کے سو دانے
آرزو لکھنوی
ہم کو اتنا بھی رہائی کی خوشی میں نہیں ہوش
ٹوٹی زنجیر کہ خود پاؤں ہمارا ٹوٹا
آرزو لکھنوی
ہماری ناکامیٔ وفا نے زمانے کی کھول دی ہیں آنکھیں
چراغ کب کا بجھا پڑا ہے مگر اندھیرا کہیں نہیں ہے
آرزو لکھنوی
ہر اک شام کہتی ہے پھر صبح ہوگی
اندھیرے میں سورج نظر آ رہا ہے
آرزو لکھنوی
ہر نفس اک شراب کا ہو گھونٹ
زندگانی حرام ہے ورنہ
آرزو لکھنوی

