ہر ٹوٹے ہوئے دل کی ڈھارس ہے ترا وعدہ
جڑتے ہیں اسی مے سے درکے ہوئے پیمانے
آرزو لکھنوی
ہوش و بے ہوشی کی منزل ایک ہے رستے جدا
خشک و تر سارے جہاں کا لب بہ لب ساحل میں ہے
آرزو لکھنوی
حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کی شعلہ جب لہرائی اڑ کے چلا پروانہ بھی
آرزو لکھنوی
اس چھیڑ میں بنتے ہیں ہشیار بھی دیوانے
لہرایا جہاں شعلہ اندھے ہوئے پروانے
آرزو لکھنوی
جواب دینے کے بدلے وہ شکل دیکھتے ہیں
یہ کیا ہوا میرے چہرے کو عرض حال کے بعد
آرزو لکھنوی
جواب دینے کے بدلے وہ شکل دیکھتے ہیں
یہ کیا ہوا مرے چہرے کو عرض حال کے بعد
آرزو لکھنوی
جذب نگاہ شعبدہ گر دیکھتے رہے
دنیا انہیں کی تھی وہ جدھر دیکھے رہے
آرزو لکھنوی

