بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو
رسمیں اس اندھیر نگر کی نئی نہیں یہ پرانی ہیں
مہر پہ ڈالو رات کا پردہ ماہ کو روشن رہنے دو
روح نکل کر باغ جہاں سے باغ جناں میں جا پہنچے
چہرے پہ اپنے میری نگاہیں اتنی دیر تو رہنے دو
خندۂ گل بلبل میں ہوگا گل میں نغمہ بلبل کا
قصہ ایک زبانیں دو ہیں آپ کہو یا کہنے دو
اتنا جنون شوق دیا کیوں خوف جو تھا رسوائی کا
بات کرو خود قابل شکوہ الٹے مجھ کو رہنے دو
غزل
بھولے بن کر حال نہ پوچھو بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
آرزو لکھنوی