EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دھارے سے کبھی کشتی نہ ہٹی اور سیدھی گھاٹ پر آ پہنچی
سب بہتے ہوئے دریاؤں کے کیا دو ہی کنارے ہوتے ہیں

آرزو لکھنوی




دل کی ضد اس لئے رکھ لی تھی کہ آ جائے قرار
کل یہ کچھ اور کہے گا مجھے معلوم نہ تھا

آرزو لکھنوی




دو تند ہواؤں پر بنیاد ہے طوفاں کی
یا تم نہ حسیں ہوتے یا میں نہ جواں ہوتا

آرزو لکھنوی




دوست نے دل کو توڑ کے نقش وفا مٹا دیا
سمجھے تھے ہم جسے خلیل کعبہ اسی نے ڈھا دیا

آرزو لکھنوی




ایک دل پتھر بنے اور ایک دل بن جائے موم
آخر اتنا فرق کیوں تقسیم آب و گل میں ہے

آرزو لکھنوی




فضا محدود کب ہے اے دل وحشی فلک کیسا
نلاہٹ ہے نظر کی دیکھتے ہیں جو نگاہوں سے

آرزو لکھنوی




ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی

آرزو لکھنوی