راہ حق میں کھیل جاں بازی ہے او ظاہر پرست
کیا تماشا دار پر منصور نے نٹ کا کیا
ارشد علی خان قلق
رستے میں ان کو چھیڑ کے کھاتے ہیں گالیاں
بازار کی مٹھائی بھی ہوتی ہے کیا لذیذ
ارشد علی خان قلق
رخ تہ زلف ہے اور زلف پریشاں سر پر
مانگ بالوں میں نہیں ہے یہ نمایاں سر پر
ارشد علی خان قلق
صید خائف وہ ہوں اس صید گہہ عالم میں
اپنے سائے کو سمجھتا ہوں کہ صیاد آیا
ارشد علی خان قلق
سندور اس کی مانگ میں دیتا ہے یوں بہار
جیسے دھنک نکلتی ہے ابر سیاہ میں
ارشد علی خان قلق
ستم وہ تم نے کیے بھولے ہم گلہ دل کا
ہوا تمہارے بگڑنے سے فیصلہ دل کا
ارشد علی خان قلق
طلائی رنگ جاناں کا اگر مضمون لکھوں خط میں
تو ہالہ گرد حرفوں کے بنے سونے کے پانی کا
ارشد علی خان قلق

