دکھاتی ہے جو یہ دنیا وہ بیٹھا دیکھتا ہوں میں
ہے تف مجھ پر تماشہ بین ہو کر رہ گیا ہوں میں
بس اتنا ربط کافی ہے مجھے اے بھولنے والے
تری سوئی ہوئی آنکھوں میں اکثر جاگتا ہوں میں
نہ کیوں ہوگی مری بار آوری پھر دیکھنے لائق
محبت کی مہکتی خاک میں بویا گیا ہوں میں
مری آبادیوں میں چار سو بکھرا ہے سناٹا
حصار خوف سے چاروں طرف باندھا گیا ہوں میں
رلاتی ہیں مری یادیں ہمیشہ خون کے آنسو
کسی نادار پہ گزرا ہوا اک حادثہ ہوں میں
مسلسل ہی بڑھائی ہیں کسی کی دھڑکنیں میں نے
مسلسل ہی کسی کے ذہن سے سوچا گیا ہوں میں
وراثت ہوں میں اک ڈھلتی ہوئی تہذیب کی صارمؔ
کہیں کھویا گیا ہوں میں کہیں پایا گیا ہوں میں
غزل
دکھاتی ہے جو یہ دنیا وہ بیٹھا دیکھتا ہوں میں
ارشد جمال صارمؔ