اضطراب ایسا ہوا دل کا سہارا مجھ کو
کوئی ٹھہراؤ نہیں خود میں گوارا مجھ کو
سر اٹھاتی ہے وہ تجدید کی خواہش مجھ میں
نقش گر سوچنے لگتا ہے دوبارہ مجھ کو
میں تہی دست کھڑا تھا سر صحرائے حیات
آرزو نے تری یک لخت پکارا مجھ کو
جا پہنچنا کسی رفعت کو نہیں ہے دشوار
ہاں! ٹھہرنے کا وہاں چاہئے یارا مجھ کو
دیکھ اے میری زبوں حالی پہ ہنسنے والے
وقت کی دھوپ نے کس درجہ نکھارا مجھ کو
ایک کنکر سا مزاحم میں رہوں گا کب تک
لے ہی جائے گا بہا کر کوئی دھارا مجھ کو
وقت نے جانے بنانا ہے مجھے کیا صارمؔ
گردش چاک سے اب تک نہ اتارا مجھ کو
غزل
اضطراب ایسا ہوا دل کا سہارا مجھ کو
ارشد جمال صارمؔ