بے اماں ہوں ان دنوں میں در بدر پھرتا ہوں میں
میں مودت ہوں وفا ہوں خیر کا جذبہ ہوں میں
دل کی موجوں میں بپا کر کے تلاطم خیزیاں
اپنے اندر کی زمینیں کاٹتا رہتا ہوں میں
کھیل ہے سرکش ہواؤں کے لئے میرا وجود
کم طنابی جس کی قسمت ہے وہ اک خیمہ ہوں میں
ہے مکمل وقت کے سورج پہ میرا انحصار
زندگی کے پاؤں سے لپٹا ہوا سایہ ہوں میں
ایسی ہی بے چہرگی چھائی ہوئی ہے شہر میں
آپ اپنا عکس ہوں میں آپ آئینہ ہوں میں
کب ملے گی مجھ کو صارمؔ اس اذیت سے نجات
ذہن و دل کی کشمکش میں رات دن الجھا ہوں میں

غزل
بے اماں ہوں ان دنوں میں در بدر پھرتا ہوں میں
ارشد جمال صارمؔ