تیرگی طاق میں جڑی ہوئی ہے
دھوپ دہلیز پر پڑی ہوئی ہے
دل پہ ناکامیوں کے ہیں پیوند
آس کی سوئی بھی گڑی ہوئی ہے
میرے جیسی ہے میری پرچھائیں
دھوپ میں پل کے یہ بڑی ہوئی ہے
گھیر رکھا ہے نارسائی نے
اور خواہش وہیں کھڑی ہوئی ہے
میں نے تصویر پھینک دی ہے مگر
کیل دیوار میں گڑی ہوئی ہے
ہارتا بھی نہیں غم دوراں
ضد پہ امید بھی اڑی ہوئی ہے
دل کسی کے خیال میں ہے گم
رات کو خواب کی پڑی ہوئی ہے
غزل
تیرگی طاق میں جڑی ہوئی ہے
عمار اقبال