حسن کے جلوے نہیں محتاج چشم آرزو
شمع جلتی ہے اجازت لے کے پروانے سے کیا
آنند نرائن ملا
عشق کرتا ہے تو پھر عشق کی توہین نہ کر
یا تو بے ہوش نہ ہو ہو تو نہ پھر ہوش میں آ
آنند نرائن ملا
عشق کرتا ہے تو پھر عشق کی توہین نہ کر
یا تو بے ہوش نہ ہو، ہو تو نہ پھر ہوش میں آ
آنند نرائن ملا
عشق میں وہ بھی ایک وقت ہے جب
بے گناہی گناہ ہے پیارے
آنند نرائن ملا
جس کے خیال میں ہوں گم اس کو بھی کچھ خیال ہے
میرے لیے یہی سوال سب سے بڑا سوال ہے
آنند نرائن ملا
کہنے کو لفظ دو ہیں امید اور حسرت
ان میں نہاں مگر اک دنیا کی داستاں ہے
آنند نرائن ملا
خدا جانے دعا تھی یا شکایت لب پہ بسمل کے
نظر سوئے فلک تھی ہاتھ میں دامان قاتل تھا
آنند نرائن ملا