جہل کو آگہی بناتے ہوئے
مل گیا روشنی بناتے ہوئے
کیا قیامت کسی پہ گزرے گی
آخری آدمی بناتے ہوئے
کیا ہوا تھا ذرا پتا تو چلے
وقت کیا تھا گھڑی بناتے ہوئے
کیسے کیسے بنا دیئے چہرے
اپنی بے چہرگی بناتے ہوئے
دشت کی وسعتیں بڑھاتی تھیں
میری آوارگی بناتے ہوئے
اس نے ناسور کر لیا ہوگا
زخم کو شاعری بناتے ہوئے
غزل
جہل کو آگہی بناتے ہوئے
عمار اقبال