ایک اک لمحہ میں جب صدیوں کی صدیاں کٹ گئیں
ایسی کچھ راتیں بھی گزری ہیں مری تیرے بغیر
آنند نرائن ملا
فرق جو کچھ ہے وہ مطرب میں ہے اور ساز میں ہے
ورنہ نغمہ وہی ہر پردۂ آواز میں ہے
آنند نرائن ملا
گلے لگا کے کیا نذر شعلۂ آتش
قفس سے چھوٹ کے پھر آشیاں ملے نہ ملے
آنند نرائن ملا
غم حیات شریک غم محبت ہے
ملا دئے ہیں کچھ آنسو مری شراب کے ساتھ
آنند نرائن ملا
حد تکمیل کو پہنچی تری رعنائی حسن
جو کسر تھی وہ مٹا دی تری انگڑائی نے
آنند نرائن ملا
ہم نے بھی کی تھیں کوششیں ہم نہ تمہیں بھلا سکے
کوئی کمی ہمیں میں تھی یاد تمہیں نہ آ سکے
آنند نرائن ملا
ہر اک صورت پہ دھوکا کھا رہی ہیں تیری صورت کا
ابھی آتا نہیں نظروں کو تاحد نظر جانا
آنند نرائن ملا