یونہی بے بال و پر کھڑے ہوئے ہیں
ہم قفس توڑ کر کھڑے ہوئے ہیں
دشت گزرا ہے میرے کمرے سے
اور دیوار و در کھڑے ہوئے ہیں
خود ہی جانے لگے تھے اور خود ہی
راستہ روک کر کھڑے ہوئے ہیں
اور کتنی گھماؤ گے دنیا
ہم تو سر تھام کر کھڑے ہوئے ہیں
برگزیدہ بزرگ نیم کے پیڑ
تھک گئے ہیں مگر کھڑے ہوئے ہیں
مدتوں سے ہزار ہا عالم
ایک امید پر کھڑے ہوئے ہیں
غزل
یونہی بے بال و پر کھڑے ہوئے ہیں
عمار اقبال