EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تم راہ میں چپ چاپ کھڑے ہو تو گئے ہو
کس کس کو بتاؤگے کہ گھر کیوں نہیں جاتے

امیر قزلباش




اسے بے چین کر جاؤں گا میں بھی
خموشی سے گزر جاؤں گا میں بھی

امیر قزلباش




اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا

امیر قزلباش




وقت کے ساتھ بدلنا تو بہت آساں تھا
مجھ سے ہر وقت مخاطب رہی غیرت میری

امیر قزلباش




یار کیا زندگی ہے سورج کی
صبح سے شام تک جلا کرنا

امیر قزلباش




یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے

امیر قزلباش




زندگی اور ہیں کتنے ترے چہرے یہ بتا
تجھ سے اک عمر کی حالانکہ شناسائی ہے

امیر قزلباش