EN हिंदी
یکم جنوری ہے نیا سال ہے | شیح شیری
yakum january hai naya sal hai

غزل

یکم جنوری ہے نیا سال ہے

امیر قزلباش

;

یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے

بچائے خدا شر کی زد سے اسے
بیچارہ بہت نیک اعمال ہے

بتانے لگا رات بوڑھا فقیر
یہ دنیا ہمیشہ سے کنگال ہے

ہے دریا میں کچا گھڑا سوہنی
کنارے پہ گم صم مہیوال ہے

میں رہتا ہوں ہر شام شکوہ بہ لب
مرے پاس دیوان اقبالؔ ہے