یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے
بچائے خدا شر کی زد سے اسے
بیچارہ بہت نیک اعمال ہے
بتانے لگا رات بوڑھا فقیر
یہ دنیا ہمیشہ سے کنگال ہے
ہے دریا میں کچا گھڑا سوہنی
کنارے پہ گم صم مہیوال ہے
میں رہتا ہوں ہر شام شکوہ بہ لب
مرے پاس دیوان اقبالؔ ہے
غزل
یکم جنوری ہے نیا سال ہے
امیر قزلباش