EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آج کی رات بھی گزری ہے مری کل کی طرح
ہاتھ آئے نہ ستارے ترے آنچل کی طرح

امیر قزلباش




اب سپر ڈھونڈ کوئی اپنے لیے
تیر کم رہ گئے کمانوں میں

امیر قزلباش




اپنے ہم راہ خود چلا کرنا
کون آئے گا مت رکا کرنا

امیر قزلباش




ایک خبر ہے تیرے لیے
دل پر پتھر بھاری رکھ

امیر قزلباش




ہونا پڑا ہے خوگر غم بھی خوشی کی خیر
وہ مجھ پہ مہرباں ہیں مگر بے رخی کے ساتھ

امیر قزلباش




اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے
تیر ہر شخص کی کمان میں ہے

امیر قزلباش




اتنا بیداریوں سے کام نہ لو
دوستو خواب بھی ضروری ہے

امیر قزلباش