فکر غربت ہے نہ اندیشۂ تنہائی ہے
زندگی کتنے حوادث سے گزر آئی ہے
لوگ جس حال میں مرنے کی دعا کرتے ہیں
میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائی ہے
ہم نہ سقراط نہ منصور نہ عیسیٰ لیکن
جو بھی قاتل ہے ہمارا ہی تمنائی ہے
زندگی اور ہیں کتنے ترے چہرے یہ بتا
تجھ سے اک عمر کی حالانکہ شناسائی ہے
کون ناواقف انجام تبسم ہے امیرؔ
میرے حالات پہ یہ کس کو ہنسی آئی ہے
غزل
فکر غربت ہے نہ اندیشۂ تنہائی ہے
امیر قزلباش