زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ تھا
رہ گیا وہ صرف دو اک گام سے
امیر قزلباش
جب پڑھا جور و جفا میں نے تو آئی یہ صدا
ٹھیک سے پڑھ اسے جورو ہے جفا سے پہلے
امیر الاسلام ہاشمی
مری مجبوریوں نے نازکی کا خون کر ڈالا
ہر اک گوبھی بدن کو گل بدن لکھنا پڑا مجھ کو
امیر الاسلام ہاشمی
اٹھے کہاں بیٹھے کہاں کب آئے گئے کب
بیگم کی طرح تم بھی حسابات کرو ہو
امیر الاسلام ہاشمی
دو کناروں کو ملایا تھا فقط لہروں نے
ہم اگر اس کے نہ تھے وہ بھی ہمارا کب تھا
'امیتا پرسو رام 'میتا
ہم نے ہزار فاصلے جی کر تمام شب
اک مختصر سی رات کو مدت بنا دیا
'امیتا پرسو رام 'میتا
کون تھا میرے علاوہ اس کا
اس نے ڈھونڈے تھے ٹھکانے کیا کیا
'امیتا پرسو رام 'میتا