نظر میں ہر دشواری رکھ
خوابوں میں بیداری رکھ
دنیا سے جھک کر مت مل
رشتوں میں ہمواری رکھ
سوچ سمجھ کر باتیں کر
لفظوں میں تہہ داری رکھ
فٹ پاتھوں پر چین سے سو
گھر میں شب بیداری رکھ
تو بھی سب جیسا بن جا
بیچ میں دنیاداری رکھ
ایک خبر ہے تیرے لیے
دل پر پتھر بھاری رکھ
خالی ہاتھ نکل گھر سے
زاد سفر ہشیاری رکھ
شعر سنا اور بھوکا مر
اس خدمت کو جاری رکھ
غزل
نظر میں ہر دشواری رکھ
امیر قزلباش