جنگ جاری ہے خاندانوں میں
غیر محفوظ ہوں مکانوں میں
لفظ پتھرا گئے ہیں ہونٹوں پر
لوگ کیا کہہ گئے ہیں کانوں میں
رات گھر میں تھی سرپھری آندھی
صرف کانٹے ہیں پھول دانوں میں
معبدوں کی خبر نہیں مجھ کو
خیریت ہے شراب خانوں میں
اب سپر ڈھونڈ کوئی اپنے لیے
تیر کم رہ گئے کمانوں میں
ناخدا کیا خدا رکھے محفوظ
وہ ہوائیں ہیں بادبانوں میں
دال چننے میں ہاتھ آئیں گے
جتنے کنکر ہیں کارخانوں میں
ڈھونڈتا پھر رہا ہوں خالی ہاتھ
جانے کیا چیز ان دکانوں میں
غزل
جنگ جاری ہے خاندانوں میں
امیر قزلباش