اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے
تیر ہر شخص کی کمان میں ہے
جس کو دیکھو وہی ہے چپ چپ سا
جیسے ہر شخص امتحان میں ہے
کھو چکے ہم یقین جیسی شے
تو ابھی تک کسی گمان میں ہے
زندگی سنگ دل سہی لیکن
آئینہ بھی اسی چٹان میں ہے
سربلندی نصیب ہو کیسے
سرنگوں ہے کہ سائبان میں ہے
خوف ہی خوف جاگتے سوتے
کوئی آسیب اس مکان میں ہے
آسرا دل کو اک امید کا ہے
یہ ہوا کب سے بادبان میں ہے
خود کو پایا نہ عمر بھر ہم نے
کون ہے جو ہمارے دھیان میں ہے
غزل
اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے
امیر قزلباش