EN हिंदी
اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے | شیح شیری
ek parinda abhi uDan mein hai

غزل

اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے

امیر قزلباش

;

اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے
تیر ہر شخص کی کمان میں ہے

جس کو دیکھو وہی ہے چپ چپ سا
جیسے ہر شخص امتحان میں ہے

کھو چکے ہم یقین جیسی شے
تو ابھی تک کسی گمان میں ہے

زندگی سنگ دل سہی لیکن
آئینہ بھی اسی چٹان میں ہے

سربلندی نصیب ہو کیسے
سرنگوں ہے کہ سائبان میں ہے

خوف ہی خوف جاگتے سوتے
کوئی آسیب اس مکان میں ہے

آسرا دل کو اک امید کا ہے
یہ ہوا کب سے بادبان میں ہے

خود کو پایا نہ عمر بھر ہم نے
کون ہے جو ہمارے دھیان میں ہے