EN हिंदी
تیرگی ہی تیرگی ہے بام و در میں کون ہے | شیح شیری
tirgi hi tirgi hai baam-o-dar mein kaun hai

غزل

تیرگی ہی تیرگی ہے بام و در میں کون ہے

امین راحت چغتائی

;

تیرگی ہی تیرگی ہے بام و در میں کون ہے
کچھ دکھائی دے تو بتلائیں نظر میں کون ہے

کیوں جلاتا ہے مجھے وہ آتش احساس سے
میں کہاں ہوں یہ مرے دیوار و در میں کون ہے

ذات کے پردے سے باہر آ کے بھی تنہا رہوں
میں اگر ہوں اجنبی تو میرے گھر میں کون ہے

چاک کیوں ہوتے ہیں پیراہن گلوں کے کچھ کہو
جھک کے لہراتا ہوا شاخ ثمر میں کون ہے

جیسے کوئی پا گیا ہو اپنی منزل کا سراغ
دھوپ میں بیٹھا ہوا راہ سفر میں کون ہے

کانپتا جا دیکھ کر اظہار کی تجسیم کو
سوچتا جا آرزوئے شیشہ گر میں کون ہے

بس ذرا بپھری ہوئی موجوں کی خو مائل رہی
اہل ساحل جانتے تو تھے بھنور میں کون ہے

شور کرتا پھر رہا ہوں خشک پتوں کی طرح
کوئی تو پوچھے کہ شہر بے خبر میں کون ہے

میں تو دیوانہ ہوں اک سنگ ملامت ہی سہی
لیکن اتنا سوچ لو شیشے کے گھر میں کون ہے