عینک کے دونوں شیشے ہی اٹے ہوئے تھے دھول میں
ہاتھ پڑ گیا کانٹوں پر پھولوں کے بدلے بھول میں
چھوتے ہی آشائیں بکھریں جیسے سپنے ٹوٹ گئے
کس نے اٹکائے تھے یہ کاغذ کے پھول ببول میں
عشق کے ہجے بھی جو نہ جانیں وہ ہیں عشق کے دعویدار
جیسے غزلیں رٹ کر گاتے ہیں بچے اسکول میں
اب راتوں کو بھی بازاروں میں آوارہ پھرتے ہیں
پہلے بھونرے ہو جاتے تھے بند کنول کے پھول میں
موٹی ڈالوں والے پیڑ کے پتے کیسے پیلے ہیں
کس نے دیکھا کون روگ ہے چھپا ہوا جڑ مول میں
غزل
عینک کے دونوں شیشے ہی اٹے ہوئے تھے دھول میں
عمیق حنفی