کہنے کو شمع بزم زمان و مکاں ہوں میں
سوچو تو صرف کشتۂ دور جہاں ہوں میں
آتا ہوں میں زمانے کی آنکھوں میں رات دن
لیکن خود اپنی نظروں سے اب تک نہاں ہوں میں
جاتا نہیں کناروں سے آگے کسی کا دھیان
کب سے پکارتا ہوں یہاں ہوں یہاں ہوں میں
اک ڈوبتے وجود کی میں ہی پکار ہوں
اور آپ ہی وجود کا اندھا کنواں ہوں میں
سگریٹ جسے سلگتا ہوا کوئی چھوڑ دے
اس کا دھواں ہوں اور پریشاں دھواں ہوں میں
غزل
کہنے کو شمع بزم زمان و مکاں ہوں میں
عمیق حنفی