کسی مکاں کے دریچے کو وا تو ہونا تھا
مجھے کسی نہ کسی دن صدا تو ہونا تھا
جسے خمیدہ سروں سے ملے قد و قامت
اسے کسی نہ کسی دن خدا تو ہونا تھا
میں جانتا تھا جبینوں پہ بل پڑیں گے مگر
قلم کا قرض تھا آخر ادا تو ہونا تھا
یہ کیا ضرور پتہ پوچھتے پھریں اس کا
ملا ہی یوں تھا وہ جیسے جدا تو ہونا تھا
وہ پچھلی رات کی خوشبو رچی رچی سی فضا
سحر قریب تھی وقف دعا تو ہونا تھا
ہم ایک جاں ہی سہی دل تو اپنے اپنے تھے
کہیں کہیں سے فسانہ جدا تو ہونا تھا
میں آئنہ تھا چھپاتا کسی کو کیا راحت
وہ دیکھتا مجھے جب بھی خفا تو ہونا تھا
غزل
کسی مکاں کے دریچے کو وا تو ہونا تھا
امین راحت چغتائی