جرس مے نے پکارا ہے اٹھو اور سنو
شیخ آئے ہیں سوئے مے کدہ لو اور سنو
کس طرح اجڑے سلگتی ہوئی یادوں کے دیے
ہمدمو دل کے قریب آؤ رکو اور سنو
زخم ہستی ہے کوئی زخم محبت تو نہیں
ٹیس اٹھے بھی تو فریاد نہ ہو اور سنو
خود ہی ہر گھاؤ پہ کہتے ہو زباں گنگ رہے
خود ہی پھر پرسش احوال کرو اور سنو
داستاں کہتے ہیں جلتے ہوئے پھولوں کے چراغ
ابھی کچھ اور سنو دیدہ ورو اور سنو
شہریاروں کے ہیں ہر گام پہ چرچے راحتؔ
یہ وہ بستی ہے کہ بس کچھ نہ کہو اور سنو
غزل
جرس مے نے پکارا ہے اٹھو اور سنو
امین راحت چغتائی