لالے پڑے ہیں جان کے جینے کا اہتمام کر
جن میں ہو کیف زندگی بہر خدا وہ کام کر
طور حیات سے اڑا جذبۂ زیستن کی آگ
جب کہیں جا کے نیت زندگی دوام کر
پہلے یہ سوچ دام کے توڑنے کی سکت بھی ہے
بعد کو دل میں خواہش دانۂ زیر دام کر
تجھ کو تری ہی آنکھ سے دیکھ رہی ہے کائنات
بات یہ راز کی نہیں اپنا خود احترام کر
حیف سمجھ رہا ہے تو اپنی جھجک کو محتسب
مے کدۂ حیات میں شوق سے مے بجام کر
نقش نوی نہیں ہے تو صفحۂ روزگار پر
مٹنے سے گر نہیں مفر مٹ ہی کے اپنا نام کر
بندۂ خواہشات کو کہتا ہے کون عبد حر
چاہیئے حریت اگر دل کو امیںؔ غلام کر
غزل
لالے پڑے ہیں جان کے جینے کا اہتمام کر
امین حزیں