EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے

علامہ اقبال




ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومت عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں

علامہ اقبال




علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

علامہ اقبال




عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

علامہ اقبال




عشق تری انتہا عشق مری انتہا
تو بھی ابھی نا تمام میں بھی ابھی نا تمام

علامہ اقبال




اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآل سکندری کیا ہے

علامہ اقبال




جب عشق سکھاتا ہے آداب خودآگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

علامہ اقبال