EN हिंदी
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے | شیح شیری
nigah-e-faqr mein shan-e-sikandari kya hai

غزل

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے

علامہ اقبال

;

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآل سکندری کیا ہے

کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے