کس طرح جاؤں کہ یہ آئے ہوئے رات میں ہیں
یہ اندھیرے نہیں ہیں سائے مری گھات میں ہیں
ملتا رہتا ہوں میں ان سے تو یہ مل لیتے ہیں
یار اب دل میں نہیں رہتے ملاقات میں ہیں
یہ تو ناکام اثاثہ ہے سمندر کے پاس
کچھ غضب ناک سی لہریں مرے جذبات میں ہیں
یہ دھوئیں میں جو نظر آتے ہیں سرسبز یہاں
یہ مکاں شہر میں ہو کر بھی مضافات میں ہیں
دل کا چھونا تھا کہ جذبات ہوئے پتھر کے
ایسا لگتا ہے کہ ہم شہر طلسمات میں ہیں
میں ہی تکرار ہوں اور میں ہی مکرر ہوں یہاں
وقت پر چلتے ہوئے دن مری اوقات میں ہیں
غزل
کس طرح جاؤں کہ یہ آئے ہوئے رات میں ہیں
علی زبیر