ادائے عشق ہوں پوری انا کے ساتھ ہوں میں
خود اپنے ساتھ ہوں یعنی خدا کے ساتھ ہوں میں
مجاوران ہوس تنگ ہیں کہ یوں کیسے
بغیر شرم و حیا بھی حیا کے ساتھ ہوں میں
سفر شروع تو ہونے دے اپنے ساتھ مرا
تو خود کہے گا یہ کیسی بلا کے ساتھ ہوں میں
میں چھو گیا تو ترا رنگ کاٹ ڈالوں گا
سو اپنے آپ سے تجھ کو بچا کے ساتھ ہوں میں
درود بر دل وحشی سلام بر تپ عشق
خود اپنی حمد خود اپنی ثنا کے ساتھ ہوں میں
یہی تو فرق ہے میرے اور ان کے حل کے بیچ
شکایتیں ہیں انہیں اور رضا کے ساتھ ہوں میں
میں اولین کی عزت میں آخرین کا نور
وہ انتہا ہوں کہ ہر ابتدا کے ساتھ ہوں میں
دکھائی دوں بھی تو کیسے سنائی دوں بھی تو کیوں
ورائے نقش و نوا ہوں فنا کے ساتھ ہوں میں
بہ حکم یار لویں قبض کرنے آتی ہے
بجھا رہی ہے؟ بجھائے ہوا کے ساتھ ہوں میں
یہ صابرین محبت یہ کاشفین جنوں
انہی کے سنگ انہیں اولیا کے ساتھ ہوں میں
کسی کے ساتھ نہیں ہوں مگر جمال الہ
تری قسم ترے ہر مبتلا کے ساتھ ہوں میں
زمانے بھر کو پتا ہے میں کس طریق پہ ہوں
سبھی کو علم ہے کس دل ربا کے ساتھ ہوں میں
منافقین تصوف کی موت ہوں میں علیؔ
ہر اک اصیل ہر اک بے ریا کے ساتھ ہوں میں
غزل
ادائے عشق ہوں پوری انا کے ساتھ ہوں میں
علی زریون