کس کر باندھی گئی رگوں میں دل کی گرہ تو ڈھیلی ہے
اس کو دیکھ کے جی بھر آنا کتنی بڑی تبدیلی ہے
زندہ رہنے کی خواہش میں دم دم لو دے اٹھتا ہوں
مجھ میں سانس رگڑ کھاتی ہے یا ماچس کی تیلی ہے
ان آنکھوں میں کودنے والو تم کو اتنا دھیان رہے
وہ جھیلیں پایاب ہیں لیکن ان کی تہہ پتھریلی ہے
کتنی صدیاں سورج چمکا کتنے دوزخ آگ جلی
مجھے بنانے والے میری مٹی اب تک گیلی ہے
زندہ ہوں تو مجھے بتائیں نیلے ہونٹوں والے لوگ
میرا کیسا رنگ کرے گی بات جو میں نے پی لی ہے
ممکن ہے اب وقت کی چادر پر میں کروں رفو کا کام
جوتے میں نے گانٹھ لیے ہیں گدڑی میں نے سی لی ہے
غزل
کس کر باندھی گئی رگوں میں دل کی گرہ تو ڈھیلی ہے
عباس تابش