مسافرت میں شب وغا تک پہنچ گئے ہیں
یہ لوگ اپنی ابد سرا تک پہنچ گئے ہیں
اب اس سے اگلا سفر ہمارا لہو کرے گا
کہ ہم مدینے سے کربلا تک پہنچ گئے ہیں
اگر مبارز طلب نہیں تھے تو کس لیے ہم
چراغ لے کر در ہوا تک پہنچ گئے ہیں
گلابوں اور گردنوں سے اندازہ ہو رہا ہے
کہ ہم کسی موسم جزا تک پہنچ گئے ہیں
تری محبت میں گمرہی کا عجب نشہ تھا
کہ تجھ تک آتے ہوئے خدا تک پہنچ گئے ہیں
بتا رہی ہے یہ خشک پتوں کی تیز بارش
ہم اپنے موسم کی ابتدا تک پہنچ گئے ہیں
ہمیں بھی شنوائی کا یقیں ہو چلا ہے تابشؔ
کہ ہم بھی تحریک التوا تک پہنچ گئے ہیں
غزل
مسافرت میں شب وغا تک پہنچ گئے ہیں
عباس تابش