تیری آنکھوں سے اپنی طرف دیکھنا بھی اکارت گیا
یعنی پہچان کا یہ نیا سلسلہ بھی اکارت گیا
یوں حنائی لکیریں اڑیں اجنبی طائروں کی طرح
پر بریدہ سا رنگ کف صد حنا بھی اکارت گیا
اب کھلا ہے کہ میرا ترے رنگ میں تیرے انداز میں
بولنا ہی نہیں دیکھنا سوچنا بھی اکارت گیا
سن رہا ہوں ابھی تک میں اپنی ہی آواز کی بازگشت
یعنی اس دشت میں زور سے بولنا بھی اکارت گیا
وہ زلیخائی خواہش ہی اپنے سبب سے پشیماں نہ تھی
ساتویں در کے اندر مرا حوصلہ بھی اکارت گیا
کوئی لو تک نہ دی کالے پیڑوں کو اس آتشیں رقص نے
یعنی جنگل میں اس مور کا ناچنا بھی اکارت گیا
غزل
تیری آنکھوں سے اپنی طرف دیکھنا بھی اکارت گیا
عباس تابش