ہمارے جسم اگر روشنی میں ڈھل جائیں
تصورات زمان و مکاں بدل جائیں
ہمارے بیچ ہمیں ڈھونڈتے پھریں یہ لوگ
ہم اپنے آپ سے آگے کہیں نکل جائیں
یہ کیا بعید کسی آنے والے لمحے میں
ہمارے لفظ بھی تصویر میں بدل جائیں
ہم آئے روز نیا خواب دیکھتے ہیں مگر
یہ لوگ وہ نہیں جو خواب سے بہل جائیں
یہ لوگ اسیر ہیں کچھ ایسی خواہشوں کے رضاؔ
جو تتلیوں کی طرح ہاتھ سے نکل جائیں
غزل
ہمارے جسم اگر روشنی میں ڈھل جائیں
اختر رضا سلیمی